برلن 8جولائی(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)جرمنی میں اب تک مروجہ قانون کے مطابق اگر کوئی عورت خود پر جنسی حملہ کرنے والے کسی مرد کے خلاف جسمانی دفاع کرے تو ہی وہ مرد ریپ کا مرتکب کہلائے گا لیکن اب جنسی زیادتی کی یہ قانونی تعریف بالآخر بدل دی گئی ہے۔کرسٹیناکلَیم((Christina Clemmایک ماہرقانون ہیں جن کے پاس ایسی بہت سی خواتین آتی ہیں، جن کے بارے میں وہ فوراََجان جاتی ہیں کہ قانونی طور پر ان کے لیے اپنا مقدمہ جیتنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہ ایسی خواتین ہوتی ہیں، جنہیں مثلاًریل گاڑی یا میٹرو میں سفر کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو، جنہیں کسی مرد نے دانستہ طور پر ہاتھ لگایاہویاایسی جورات گئے پبلک ٹرانسپورٹ بندہوجانے کے بعدکسی جاننے والے کے ہاں پارٹی کے بعد اسی کے گھر میں صوفے پرسو گئی ہوں اورجنہیں صبح پتہ چلا ہو کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے؟۔کرسٹینا کلَیم جرمنی میں جنسی جرائم سے متعلقہ قانون کی ماہر وکیل ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مرد کی طرف سے جنسی مقاصد کے لیے کی جانے والی پیش رفت پر کوئی خاتون واضح طور پر انکار تو کرتی ہے لیکن قانون اس کی عدم رضامندی اس لیے تسلیم نہیں کرتا کہ خاتون نے مرد کے خلاف جسمانی طورپرمزاحمت نہیں کی ہوتی۔ایسا ہی ایک اور مقدمہ ابھی حال ہی میں ایک عدالت نے اس لیے خارج کر دیا کہ اس واقعے میں عدالت کے مطابق درخواست دہندہ خاتون نے خود پر جنسی حملہ کرنے والے مرد کے خلاف باقاعدہ جسمانی مزاحمت نہیں کی تھی۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ جرمنی میں اب تک یہ قانون نافذ ہے کہ کسی مرد کی طرف سے کسی خاتون کے خلاف جنسی مقصد کے تحت کی جانے والی جسمانی پیش رفت اور اس کے نتائج کو باقاعدہ جنسی زیادتی یا ریپ صرف اسی وقت سمجھا جاتا ہے، جب حملہ آور نے کوئی دھمکی دی ہو، کسی خاتون کوبزورطاقت خطرناک نتائج سے ڈرایا ہو اور متاثرہ عورت نے ایسے کسی ملزم کے خلاف اپنے دفاع کے لیے باقاعدہ جسمانی مزاحمت بھی کی ہو۔قانون کی نظر میں اگر کسی مرد یا خاتون نے کسی بھی جنس سے تعلق رکھنے والے حملہ آور کی صرف منت سماجت ہی کی ہو، تو قانون کی نظر میں ایسا کوئی جبری جنسی تعلق ریپ نہیں سمجھا جاتا اور اسے جزوی طور پر متاثرہ فرد کی جسمانی رضامندی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں ماہرین قانون اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن یہ شکایت کرتے ہیں کہ اس یورپی ملک میں کسی شخص کی ذاتی جائیداد کی تو قانونی طور پر بہت اچھی طرح حفاظت ممکن ہے لیکن اس کے برعکس کسی انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ جبری جنسی رابطوں کی صورت میں جرم کا نشانہ بنے والے شہری کے حقوق کی تسلی بخش قانونی حفاظت ابھی تک ممکن نہیں ہوئی۔
اس بارے میں حقوق نسواں کی تنظیموں اور سرکردہ کارکنوں کا کہنا ہے کہ قانون سازوں کو اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جب کوئی خاتون نہ کہہ دیتی ہے تو نہ کا مطلب نہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن جنسی تعلق قائم کرنے کے عمل میں اپنی عدم رضامندی کے باوجود زیادہ تر خواتین اس لیے جسمانی مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں کہ وہ متعلقہ مجرم سے خوفزدہ ہوتی ہیں یا وہ یہ سوچتی ہیں اگر انہوں نے اپنے ریپ کے خلاف جسمانی مزاحمت کی تو نتائج اور بھی زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔اسی موضوع پراستنبول کنونشن کے نام سے ایک بین الاقوامی معاہدہ بھی موجود ہے، جس کے مطابق ہر وہ جنسی رابطہ قابل سزا جرم ہے، جس میں دونوں افرادکی رضا مندی شامل نہ ہو۔ اس کنونشن کی بنیاد بھی یہی کلیدی سوچ ہے کہ نہ کا مطلب نہ ہی ہوتا ہے۔ جرمنی اس کنونشن پر دستخط تو کر چکا ہے لیکن اس نے اب تک اس کی باقاعدہ توثیق نہیں کی ہے۔جرمنی میں اب تک نافذ اور اکثر خواتین کے موقف کے خلاف جانے والی ریپ کی قانونی تعریف اب عملََاس لیے بہت جلد بدل جائے گی کہ اس بارے میں اس سال مارچ میں وفاقی وزارت انصاف نے ایک نیا مسودہء قانون تیار کیا تھا۔ پھر اس پر موجودہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے پارلیمانی گروپوں کے مابین اتفاق رائے بھی ہو گیا۔ آج جمعرات سات جولائی کے روز برلن کی وفاقی پارلیمان میں اس نئے قانون کی اکثریتی رائے سے منظوری بھی دے دی گئی۔قابل تعریف بات یہ بھی ہے کہ اس مسودۂ قانون کی اپوزیشن اور مخلوط حکومتی ارکان پارلیمان نے، جن کی تعداد 601 بنتی تھی، متفقہ رائے سے منظوری دی۔ اس طرح جرمنی میں اب جنسی جرائم کا نشانہ بننے والے افراد کے حقوق بہتر بنا دیے گئے ہیں، موجودہ قانون زیادہ سخت بنا دیا گیا ہے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اب ایسے جرائم سے متعلق نہ کا مطلب نہ ہی ہوتا ہے کا پہلو اتنا مضبوط بنا دیا گیا ہے کہ اب کسی بھی ملزم کو اپنے دفاع میں یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ جس عمل کا مرتکب ہوا، اس میں دوسرے فریق کی واضح رضامندی بھی شامل تھی۔